Posts

Featured post

کیا سوتیلا ہونا اتنابڑا جرم ہے؟

Image
انسان  ترقی کی منزلیں طے کررہاہے  مگر کچھ چیزوں میں وہ ابھی بھی پستی کا شکار ہے ۔ کیونکہ اس کا تعلق ترقی سے نہیں ہے بلکہ یہ اس کی فطرت کا حصہ معلوم ہوتی ہے۔  اس میں سے ایک چیز ہے  سوتیلا ہونا۔ ناجانے کیوں پر یہ سوتیلا پن انسانوں کو زہر لگتا ہے،وہ زہر تو برداشت کرلیتے  ہیں مگر سوتیلے کو کبھی برداشت نہیں کرتے ۔ اور بالخصوص خواتین اس میں حددرجہ متعصب نظر آتی ہے۔ اس کی سب سے دردناک مثال گزشتہ دنوں لوئر دیر کے علاقے لال قلعہ مید ان میں پیش آنے والا واقعہ ہے۔جہاں نائلہ  اپنی سوتیلی ماں کے ساتھ رہتی تھی مگر  شادی کے بعد سے ہی     سوتیلی ماں نے اس گڑیاں پر ہر طرح کے ظلم کے  پہاڑ ڈھائے،  اکثر اسے  کمرے میں بند کردیتی ،برف باری کے دنوں   میں اسے کام کے بہانے سے شدید سردیوں میں چھوڑ دیتی تھی،   قریبی رشتہ داروں کا کہنا ہے  سوتیلی ماں نے  اس کے دانت بھی  توڑے تھے، جلایا بھی تھا ان بے تحاشہ مظالم کے باوجود اللہ تعالی نے اس معصوم بچی کو زندگی دی اور وہ بلوغت کی عمر تک پہنچ گئی۔ گزشتہ دنوں زبردستی 12 سا...

الوداع کلاس میٹرک

دن ہفتے، مہینے اور پھر پورا سال بیت گیا۔ مگر کس سرعت اور جلد بازی سے گزرا اندازہ ہی نہیں ہوا۔۔۔۔۔ آج اسکول میں دسویں جماعت کے طلبہ کا آخری دن تھا۔پر یقین نہیں ہوتا کہ اگلے دن جب ہم اسکول جائیں گے تو کلاس میٹرک میں کرسیاں تو ہونگی پر وہ کھلکھلاتے چہرے نہیں ہونگے۔ جن کی آبیاری کا بوجھ ہم کاندھوں پر اٹھائے پھرتے رہیں۔ مجھے آج بھی یاد ہے جب میرا اسکول میں پہلا دن تھا تو دل میں خوف و مایوسی کی ایک کیفیت سرگرداں تھی۔ کیونکہ ہم نے سنا تھا کہ اب اسکولوں میں استاد کو استاد کم اور نوکر زیادہ سمجھا جاتاہے۔ جبکہ میٹرک کے بڑے بچے تو ہنگامہ برپا کر دیتے ہیں۔ مگر آج جب کلاس میٹرک کا آخری دن تھا اسکول میں ۔ تو وہ تمام افواہیں دم توڑ چکی تھی۔۔۔۔ ویسے تو پوری کلاس اچھی اور بھلی تھی۔شرارتی تھی پر بدتمیز نہیں تھی۔مگر ہر پھول کی اپنی مہک اور پھل کا اپنا ذائقہ ہوتا ہے۔ بوقت جدائی کلاس میں جذبات اور احساسات کا عجب عالم تھا۔ ہر طرف آنسوں کا نہ تھمنے والا سلسلہ جاری تھا،  اور کیوں نہ ہوتا کہ بوئے گل، گل سے جدا ہورہی تھی۔۔۔ یہ منظر دیکھ کر اپنا دور یاد آیا۔جب اساتذہ پرنم آنکھوں کے ساتھ ہمارے سروں دست شف...

کوئٹہ کا سفر

Image
27نومبر بروزبدھ علی الصبح چھ افراد پر مشتمل قافلہ ایازالحسن بھائی کی سرپرستی میں کراچی سے کوئٹہ کیلئے روانہ ہوا۔ بلوچستان کے حدودمیں داخل ہوئے وندر کے مقام پر ناشتہ کیا۔جہاں ہلکی ہلکی ٹھنڈمحسوس ہوئی جس سے اس بات کا اندازہ ہوا کہ آگے سخت ترین سردی ہماری منتظرہے۔ وندرسے گاڑی چل پڑی اور وڈھ سے ہوتی ہوئی خضدار کی جانب رواں دواں ہوئی، یہ سنگل روڈہے جس پرآنے جانے دونوں اطراف کی گاڑیاں چلتی ہیں راستے میں خطرناک موڑ آتے ہیں جس سے حادثات کے خطرے اورزیادہ ہوجاتے ہیں۔اس بات کا اندازہ راستے میں کہیں مقامات پر تباہ شدہ گاڑیوں کا مشاہدہ کرکےہوا۔ خضدارروڈبے آب و گیاہ پہاڑوں اور بیابانوں سے ہوکر گزرتا ہے۔ سڑک سےقریب مٹی کے چھوٹے چھوٹے ٹھیلے اوراس کے عقب میں عجیب الخلقت اورڈراونے پہاڑتھے جس پرسبزےکادوردورتک نام ونشاں بھی نہیں ۔ تقریبا دو بجے خضدار میں داخل ہوئے اور شاشان ہوٹل سے متصل مسافروں کیلئے بنی چھوٹی سی مسجدمیں نماز ظہرادا کی۔ خضدار صوبہ بلوچستان کے ضلع خضدارکاایک شہر ہے ۔خضدار کو1974ءمیں الگ ضلع کادرجہ دیاگیااس سے پہلے یہ ضلع قلات کاحصہ تھا۔ شاشان ہوٹل میں چائے نوش فرمائی ،گل بھائی نے اپنے بزنس...

کتاب پر تبصرہ

Image
اردو ترجمہ (((جنٹلمین استغفراللہ))) مصنف:کرنل(ر) اشفاق حسین۔ کارگل آپریشن پر بے شمار کالم اور کتابیں لکھی گئی مگر زیر نظر کتاب اپنی نوعیت کی ایک خاص کتاب ہے۔۔۔کتاب کیا ہے حقائق کا سرچشمہ ہے جس میں بڑے انکشافات ہوئےاور کئی رازوں سے پردہ اٹھایا گیا ہے۔ کتاب کی سب کے بڑی خوبی یہ ہے کہ یہ ایک فوجی نے لکھی ہے۔ اور فوجی بھی وہ جو بڑا ادیب اور کئی کتابوں کا مصنف ہے۔ مذکورہ کتاب کو کارگل آپریشن پرایک جامع مانع کتاب اس لیے بھی کہا جاسکتا ہے کہ اس میں مشاہدات اور تجربات کی بہتات اور انٹرویو کا ذخیرہ ہے۔ کتاب تین حصوں پر منقسم ہے۔ پہلے حصے میں مصنف نے اختصارا برصغیر کی تاریخ  اور کارگل جنگ سے ماقبل اور مابعد کے حالات قلم بند کیے اور اعداد وشمار کے ذریعے بڑی باریک بینی سے اس المناک واقعے کا جائزہ لیا۔ دوسرے حصے میں ان جانباز جوانوں کا ذکر کیا گیا ہے جو شہادت کے جذبہ سے سرشار وطن عزیز کی عزت و عظمت پر قربان ہونے کو ہر لمحے بیتاب نظر آئے۔ اور جنہوں نے خون کی سرخ قبا پہن کر مملکت خداداد پر آنچ نہیں آنے دی۔ تیسرے حصے میں مصنف نے مارشل لاء اور جنرل ر پرویز مشرف کی کارستانیوں کا تذکرہ کیا ہے...

مدراس کیفے

Image
کتابوں کی طرح کچھ موویز اور ڈاکومنٹریز بھی ایسی ہوتی ہیں جو انسان کے چودہ طبق روشن کردیتی ہیں ایسی ہی ایک کا نام ہے مدراس کیفے جانی ابراہیم کی یہ فلم 2013 میں ریلیز ہوئی اور میں نے اسے 2020 میں دیکھا۔ یہ فلم دیکھ کر ایسا لگا گویا میں کسی اونچی پہاڑی کی چوٹی پر بیٹھا ہوں اور نیچے میدان میں جاری کھیل کو دیکھ رہا ہوں۔فلم دیکھ کر آپ کو اندازہ ہوگا کہ دنیا میں سیاست کا کھیل کس طرح کھیلا جاتاہے۔ چھوٹے سے ملک کے چھوٹے سے علاقے میں بغاوت ک رنے والے چند لوگ کس طرح مسلح ہوکر ریاست سے ٹکر لیتی ہے۔ یہ قوت کہاں سے آتی ہے ، کیونکر آتی ہے اور بظاہر نظر آنے والی چھوٹی سی بغاوت کےپیچھے کتنے خطرناک منصوبے کار فرما ہوتے ہیں۔ خود ایجنسیوں کے لوگ کس طرح اپنی ہی بچھائے ہوئے جال میں کیسے پھنس جاتےہیں۔اور اس کھیل کے بڑے کھلاڑی کیسے انہیں استعمال کرکے پھینک دیتے ہیں اور بسا اوقات ان بڑے مگر مچھوں پر ان کے اپنے بنائے ہوئ ے منصوبے الٹ جاتے ہیں اور نوبت یہاں تک پہنچتی ہے کہ موت کے سوا کوئی چارہ نہ پاکر کسی نیم تاریک شب میں اسٹڈی ٹیبل پر سر رکھ کر اپنی ہی پسٹل سے خودکشی کرکے خودکو اس ڈیپریشن سے آزاد کرنے کی ک...

ہمارے اردگرد بکھری کہانیاں۔

Image
آپ جیل گئےتھے۔۔۔؟ مگر کیوں۔۔۔؟ جی بیٹا! دو چار مہینے پہلے ہی زندگی کے تین برس سلاخوں کے پیچھےجیل کی کھال کھوٹیوں میں بیتا کر آٰیاہوں۔۔۔ بابامی تجسس بھری نگاہیں دیکھ کر بولتے چلے گئے۔۔۔۔ ہوا یوں کہ تین سال پہلے ایک پہچان والی افغان عورت اور اسکی بیٹی نے شکایت کی کہ ایک شخص انہیں تنگ کرتا ہے۔ میں اس بارے میں ااس شخص سے بات کرنے گیا تو انہوں نے گالم گلوچ سے استقبال کیا تو بات ہاتھا پائی تک پہنچی ایک غیرت مند پختون کا گالی برداشت ک رنا ناممکن تھا۔ چنانچہ گھر گیا پسٹل لی اور جناب کو زندگی کے قید سے آزادی کا پروانہ تھما دیا۔ اور خود چکھی پیسنے جیل جا پہنچا۔ اپنے جرم اور گناہ کی سزا پا کر اب نئے سرے سے زندگی شروع کرناچاہی مگر اس عمر میں اب یہ میرے بس سے باہر ہے۔ کہ کبھی غربت کے کانٹے دامن سے الجھتیں ہیں تو کبھی تلوؤں میں چھبتیں ہیں۔۔۔ بابا پہلے آپ کا کیا مشغلہ تھا۔؟ بیٹا میری اپنی مسافر کوچ تھی۔ لیکن حوادث زمانہ نے سب کچھ چھین لیا اور اب گھر کے بھاری بھرکم بوج کےسوا کچھ بھی نہیں۔ یہ پچھلےدنوں کے بات ہے۔ جب غروب آفتاب کے بعد یونیورسٹی میں کلاس اختتام کو پہنچی اور باہر نکلے تو ڈپار...
Image
Two Days of University Life (shakir Ahmed) انسانی معاشرہ اکثر قدرتی آفات سے دوچار ہوتا رہتاہے،کرہ ارض کے مختلف حصوں کو زلزلہ،سیلاب،طوفان اور سونامی کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ایسا ہی ایک واقعہ 2015ء میں پیش آیا جب پاکستان کے شمالی علاجات کو زلزلہ نے جھنجھوڑکے رکھدیا،اس زلزلہ کا مرکز افغانستان کا شمالی علاقہ تھا۔ مگرپاکستان کے شمالی علاقے بھی قربت کی بناء پر اس سے بے انتہاء متاثر ہوئے۔ چنانچہ پورے کے پورے گاؤں زلزلہ کے شکار ہوئے۔ زلزلے کی خبر پھیلتے ہی پاکستانی قوم ہمیشہ کی طرح جزبہ خدمت خلق سے سرشار اپنے بھائوں کی مدد کیلئے نکلے اور مختلف چراہوں پر متاثرین کیلئے سازوسامان جمع کرنے کی نیت سے کیمپ لگانے لگے۔ اسی جذبہ کو دل میں لئے ہمارے کلاس فیلو اور بہت ہی اچھے دوست بھائ شہریارصدیقی نے اس بارےمیں ڈاکٹر کنیز فاطمہ سے رجوع کیا اور اپنے نیک ارادے سے انکو آگاہ کیا۔ ڈاکٹر کنیز فاطمہ جو کہ ہماری سوشیالوجی کی ٹیچرہے۔ (اور نہایت ہی مشفق اور طلبہ کی حوصلہ افزائی کرتی رہتی ہے) کلاس میں آئی اور شہریار بھائی (کے متاثرین کیلئے کچھ کرنے) کے نیک ارادے سے طلبہ کو باخبر کیا۔ اور اس کام کی طرف طلبہ کو را...