کوئٹہ کا سفر

27نومبر بروزبدھ علی الصبح چھ افراد پر مشتمل قافلہ ایازالحسن بھائی کی سرپرستی میں کراچی سے کوئٹہ کیلئے روانہ ہوا۔
بلوچستان کے حدودمیں داخل ہوئے وندر کے مقام پر ناشتہ کیا۔جہاں ہلکی ہلکی ٹھنڈمحسوس ہوئی جس سے اس بات کا اندازہ ہوا کہ آگے سخت ترین سردی ہماری منتظرہے۔ وندرسے گاڑی چل پڑی اور وڈھ سے ہوتی ہوئی خضدار کی جانب رواں دواں ہوئی، یہ سنگل روڈہے جس پرآنے جانے دونوں اطراف کی گاڑیاں چلتی ہیں راستے میں خطرناک موڑ آتے ہیں جس سے حادثات کے خطرے اورزیادہ ہوجاتے ہیں۔اس بات کا اندازہ راستے میں کہیں مقامات پر تباہ شدہ گاڑیوں کا مشاہدہ کرکےہوا۔
خضدارروڈبے آب و گیاہ پہاڑوں اور بیابانوں سے ہوکر گزرتا ہے۔ سڑک سےقریب مٹی کے چھوٹے چھوٹے ٹھیلے اوراس کے عقب میں عجیب الخلقت اورڈراونے پہاڑتھے جس پرسبزےکادوردورتک نام ونشاں بھی نہیں ۔
تقریبا دو بجے خضدار میں داخل ہوئے اور شاشان ہوٹل سے متصل مسافروں کیلئے بنی چھوٹی سی مسجدمیں نماز ظہرادا کی۔
خضدار صوبہ بلوچستان کے ضلع خضدارکاایک شہر ہے ۔خضدار کو1974ءمیں الگ ضلع کادرجہ دیاگیااس سے پہلے یہ ضلع قلات کاحصہ تھا۔
شاشان ہوٹل میں چائے نوش فرمائی ،گل بھائی نے اپنے بزنس کےحوالےسے ایک شخص سے ملاقات کی جو ہمارے پہنچنے سے پہلے وہاں آچکاتھا۔اس کے بعدسفر ایک بار پھر شروع ہوااوراس بار ہماری منزل قلات تھی جہاں ہمارے میزبان ڈی سی آف قلات خان محمد صاحب تھے۔چاربجے کے قریب ہماراقافلہ قلات پہنچا ،گاڑی سے اترے تومیزبان کے ساتھ ساتھ وہاں ٹہٹرتی سردی بھی ہماری منتظر تھی۔
قلات صوبہ بلوچستان کاایک ضلع ہے۔اس کے مشہورعلاقوں میں قلات اورسوراب شامل ہے۔قلات کے ریسٹ ہاوس میں نمازعصر کیلئے وضوکیاتو انگلیاں ایسی ساکت ہوئی گویا خشک لکڑی۔ خان محمدصاحب نے کھانے کابندوبست کیا تھا،ان کے ساتھ کھاناکھایا،مختصر ملاقات کی اور قلات کے حوالے سے گفتگوہوئی۔ موصوف کافی اچھے اورسنجیدہ مزاج کے مالک تھے ۔ریسٹ ہاوس کے باہر کچھ بچے جمع تھے جن میں ایازبھائی نےکراچی سے ساتھ لئے میوے اورکچھ نئے نوٹ تقسیم کیے جس سے بچوں کےچہرے کھل کھلااٹھے اور مسکراتےچہروں کے ساتھ ہمیں الوداع کہا۔
گاڑی ایک بار پھر تھرکول کی سڑک چیرتے ہوئےکوئٹہ کی جانب گامزن تھی اور بلآخر سوراب اور مستونگ سے ہوتے ہوئےرات کی تاریکی میں ہم کوئٹہ شہرمیں داخل ہوئے ۔
کوئٹہ پاکستان کے صوبہ بلوچستان کاصدرمقام اورسب سے بڑا شہر ہے، کوئٹہ شہرسطح سمندرسے 1700سے 1900میٹرتک بلندی پر واقع ہے اوراپنےبہترین معیار کی پھلوں کیلئے مشہور ہے۔یہ بنیادی طورپر خشک پہاڑوں میں گراہوا ہےجہاں سردیوں میں شدیدسردی اوربرف باری ہوتی ہے۔1839ء میں پہلی برطانوی و افغان جنگ کے دوران انگریزوں نے کوئٹہ پرقبضہ کرلیا اوراسے ایک فوجی اڈے میں تبدیل کیا۔ سن1935ءمیں ایک تباہ کن زلزلے نے پورے شہرکوآناً فاناً مٹی کے ڈھیر میں تبدیل کردیا اور ایک اندازے کے مطابق چالیس ہزار افرادلقمہ اجل بنے۔اس زلزلےکاشمار جنوبی ایشیا کی تاریخ کے چار بڑے ترین زلزلوں میں کیاجاتاہے۔صوبائی دارالحکومت ہونے کی وجہ سے اکثرسرکاری دفاتر،صوبائی اسمبلی اورعدالتیں یہی ہیں۔
کوئٹہ پہنچے توہمارےمیزبان جہانگیر بھائی اپنے دوبھائیوں(عالمگیر بھائی اورگل احمد)سمیت ہمارا استقبال کیاجوواپسی تک ساتھ نبھاتے رہے۔ جہانگیربھائی ہنس مکھ ،پرخلوص اور اچھے دل کےمالک انسان ہیں جو کہ تین دن تک ہمارے ساتھ رہے اور مہمان نوازی میں کوئی کسر نہیں چھوڑی۔
جہانگیر بھائی ہمیں لیکر کوئٹہ عسکری روڈپر واقع اپنے گھرلےگئے، 14 گھنٹےکے طویل سفرکی تھکاوٹ کوختم کرنے کیلئے تھوڑی دیرقہوہ چائےپیش کی گئی، قہوئےچائے کے ساتھ ساتھ بیٹھک میں لگے ہیٹرنےسردی کا احساس کم کیااورکافی سکون ملا ۔ ایک ہمارےمیزبان ماشاءاللہ اہل ثروت اور دوسری طرف پشتون روایات کےامین تھے چنانچہ ڈنراورپھر صبح ناشتےمیں کافی زیادہ تکلفات کی گئی تھی۔
چونکہ ہمارا یہ دورہ ملاقاتی دورہ تھالہذااگلےروزکسٹم آفس کوئٹہ کے اڈیشنل کلیکٹرمرتضیٰ یاسین صاحب، ایف آئی اے کوئٹہ کےڈائریکٹر الطاف حسین آرائیں اورپی ٹی وی کوئٹہ کے جی ایم سے ملاقاتیں کی، جن سے انکےشعبوں کےمتعلق سیرحاصل گفتگو ہوئی۔
ایاز بھائی کے دوست اورقبیلے وردک کےسردار کے بھائی ناظم وردک نے کچلاک کے مشہوردبئی ریسٹورنٹ میں ڈنر کاانتظام کیاتھا،جہاں ٹھٹرتی سردی میں روسٹ کا الگ ہی مزہ تھا۔ بعدازاں ناظم صاحب کےساتھ ان کے ڈیرے پرگئے جہاں ان کےبڑےبھائی سردارخادم حسین وردک نے اسقبال کیا اورقبائلی روایات کےمطابق مہمان نوازی کی، یہ قبائلی لوگ مہمان کےآنے کو اپنے لیےخوشی کاباعث سمجھتے ہیں۔
اگلےروزجہانگیربھائی کے ساتھ شہرکی سیر کونکلے اور مختلف مقامات سےہوتے ہوئے کینٹ پہنچے جہاں میجر شیخ مرید سےملاقات ہوئی جو خودتوروزےتھےمگر ہمارےلیےلنچ کاخوب انتظام کیاتھا۔ کینٹ سے نکلے تو ہزارہ برادری کے علاقے سے ہوتے ہوئے مزار پہنچے جس کےمتعلق یہ مشہور ہے کہ لعل شہاز قلندرؒ نے افغانستان سےآتےہوئےیہاں کچھ عرصےکیلئے سکونت اختیارکی تھی،مزارکے احاطےمیں موجودمسکینوں میں ایازبھائی نے اشیاءخوردنوش تقسیم کیے اور وہاں موجودقبروں پرفاتحہ پڑھی۔ شام کے وقت جب پرندےاپنے گھروں کی طرف لوٹ رہے تھے اور سردی کی شدت میں اضافہ ہورہاتھاتو ہم کوئٹہ گلف کلب میں موجودتھےجہاں غروب آفتاب کا خوبصورت نظارہ دیکھنےکوملا، کوئٹہ کلب میں موجودپارک کی سبز گھاس اور اس کےعقب میں کھڑاپہاڑاسےاور دلکش بناتا ہے،یہاں آکرزندگی اورخوبصورت لگنےلگتی ہے۔
رات کاکھاناایازبھائی کے ایک اوردوست جسٹس یوسف کاکڑ کی طرف سے تھا اس بار مرکز طعام وطاق ہوٹل تھا جولذیذاورمزیدارکھانوں کےحوالےسےکافی شہرت رکھتا ہے۔
رات کو واپس جہانگیربھائی کےگھرپہنچے جہاں ایک بارپھرقہوےکاسلسلہ شروع ہوا اور رات دیرتک چلتارہا۔
سوشل میڈیاکی بدولت کوئٹہ کےدوستوں کوجب ہماری وہاں موجودگی کاعلم ہوا تو کافی دوستوں نےرابطہ کیا ،جس میں سرفہرست رائٹرگلڈآف اسلام کےصدرAbdul Ghani Shehzad، صدیق احمد فاروق اورہمارےدیرینہ دوست اور ساتھی محمدانورتھے جنہوں نےکافی اصرارکیامگرکچھ وجوہات کی بنیادپران کے ہاں نہ جاسکاچنانچہ معقول عذرپیش کیااورمعذرت کی۔
اگلی رات کے آخری پہرجب آسمان پرستارے خوب جگمگارہےتھےاورکوئٹہ کے باسی سکون کی نیند سورہے تھے ہم نے اس شہر کو الوداع کہا اس عزم کے ساتھ کہ یہ تعلق اور سلسلہ برقرار رہے گا۔

Comments

Popular posts from this blog

الوداع کلاس میٹرک

مدراس کیفے