مدراس کیفے
کتابوں کی طرح کچھ موویز اور ڈاکومنٹریز بھی ایسی ہوتی ہیں جو انسان کے چودہ طبق روشن کردیتی ہیں ایسی ہی ایک کا نام ہے مدراس کیفے جانی ابراہیم کی یہ فلم 2013 میں ریلیز ہوئی اور میں نے اسے 2020 میں دیکھا۔ یہ فلم دیکھ کر ایسا لگا گویا میں کسی اونچی پہاڑی کی چوٹی پر بیٹھا ہوں اور نیچے میدان میں جاری کھیل کو دیکھ رہا ہوں۔فلم دیکھ کر آپ کو اندازہ ہوگا کہ دنیا میں سیاست کا کھیل کس طرح کھیلا جاتاہے۔ چھوٹے سے ملک کے چھوٹے سے علاقے میں بغاوت کرنے والے چند لوگ کس طرح مسلح ہوکر ریاست سے ٹکر لیتی ہے۔ یہ قوت کہاں سے آتی ہے ، کیونکر آتی ہے اور بظاہر نظر آنے والی چھوٹی سی بغاوت کےپیچھے کتنے خطرناک منصوبے کار فرما ہوتے ہیں۔
خود ایجنسیوں کے لوگ کس طرح اپنی ہی بچھائے ہوئے جال میں کیسے پھنس جاتےہیں۔اور اس کھیل کے بڑے کھلاڑی کیسے انہیں استعمال کرکے پھینک دیتے ہیں اور بسا اوقات ان بڑے مگر مچھوں پر ان کے اپنے بنائے ہوئ
ے منصوبے الٹ جاتے ہیں اور نوبت یہاں تک پہنچتی ہے کہ موت کے سوا کوئی چارہ نہ پاکر کسی نیم تاریک شب میں اسٹڈی ٹیبل پر سر رکھ کر اپنی ہی پسٹل سے خودکشی کرکے خودکو اس ڈیپریشن سے آزاد کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔
یہ ادارےبڑے کاروباری حضرات کو اپنے ساتھ شامل کرتے ہیں اور کامیابی کی صورت میں انہیں اس علاقے میں سرسبز خواب دکھائے جاتے ہیں۔
اس فلم میں آپ اس بات کی بھی ہلکی سی جہلک دیکھ سکتے ہیں کہ جس رات کوئی سیاسی لیڈر کسی بڑے جلسے سے خطاب کیلئے آتا ہے تو وہ رات سیکیورٹی اداروں پر کیسے گزرتی ہے۔
ان لیڈروں کی گفتگو مہمل نہیں ہوتی بلکہ اپنوں کے ساتھ ساتھ مخالفین کی بھی اس پر بڑی نظر ہوتی ہے۔ اور بسااوقات کسی ملک کے وزیر اعظم اور صدر کے ایک بیان سے شمال سے جنوب اور مشرق سے مغرب تک سیاسی ہلچل مچ جاتی ہے۔ایک فیصلے کی وجہ سے پورا سیاسی منظرنامہ بدل جاتا ہے۔
فلم میں آپ دیکھ سکتے ہیں کس طرح اس کھیل میں ضرورت پڑنے پر ایک سپاہی سے لیکر وزارت عظمی اور بڑے سیاسی لیڈر سائٹ لائن لگا دیئے جاتے ہیں۔۔
Comments
Post a Comment