کیا سوتیلا ہونا اتنابڑا جرم ہے؟
انسان ترقی کی منزلیں طے کررہاہے مگر کچھ چیزوں میں وہ ابھی بھی پستی کا شکار ہے ۔
کیونکہ اس کا تعلق ترقی سے نہیں ہے بلکہ یہ اس کی فطرت کا حصہ معلوم ہوتی ہے۔ اس میں سے ایک چیز ہے سوتیلا ہونا۔
ناجانے کیوں پر یہ سوتیلا پن انسانوں کو زہر لگتا ہے،وہ زہر تو برداشت کرلیتے ہیں مگر سوتیلے کو کبھی برداشت نہیں کرتے ۔ اور بالخصوص خواتین اس میں حددرجہ متعصب نظر آتی ہے۔
اس کی سب سے دردناک مثال گزشتہ دنوں لوئر دیر کے علاقے لال قلعہ مید ان میں پیش آنے والا واقعہ ہے۔جہاں نائلہ اپنی سوتیلی ماں کے ساتھ رہتی تھی مگر شادی کے بعد سے ہی
سوتیلی ماں نے اس گڑیاں پر ہر طرح کے ظلم کے پہاڑ ڈھائے، اکثر اسے کمرے میں بند کردیتی ،برف باری کے دنوں میں اسے کام کے بہانے سے شدید سردیوں میں چھوڑ دیتی تھی،
قریبی رشتہ داروں کا کہنا ہے سوتیلی ماں نے اس کے دانت بھی
توڑے تھے، جلایا بھی تھا ان بے تحاشہ مظالم کے باوجود اللہ تعالی نے اس معصوم بچی کو زندگی دی اور وہ بلوغت کی عمر تک پہنچ گئی۔

یہ صرف ایک نائلہ کی کہانی نہیں ہے بلکہ اس جیسی کئی کہانیاں ہیں جو ہمارے اردگرد زندگی بسر کررہی ہے ۔ جس پر خود انسانیت بھی شرمسار نظر آتی ہے مگر اولاد آدم کے دل میں اس بابت رحم کے اثار نظر نہیں آتے ۔
کچھ لوگ اسے قبائل اور ناخواندگی سے تعبیرکرتے ہیں مگر ایسا نہیں ہے یہ مرض بڑے بڑے شہروں میں اعلی تعلیم یافتہ لوگوں میں بھی کثرت کے ساتھ پایا جاتاہے۔
چونکہ انسان احساس کا مجموعہ ہے مگر جب ہماری اندرونی نفرت احساس پر غالب آجاتی ہے تو پھر وہ انسانیت کے دائرے سے نکل جاتا ہے۔وہ تاریکیوں کےگھٹاٹوپ اندھیروں میں کھوجاتاہے
پھر اس بات کی کوئی اہمیت نہیں ہوتی کہ وہ پڑھا لکھا ہے یا جاہل اس مقام پر آکر پڑھے لکھے اور جاہل میں فرق ختم ہوجاتاہے۔
معلوم ہوا کہ ہمیں علم و فن سے زیادہ احساس کی ضرورت ہےجس کا تعلق اس مادی ترقی سے بالکل نہیں ہے۔ بلکہ اس کیلئے آگاہی اور شعور اجاگر کرنا ہوگا۔
Comments
Post a Comment