ہمارے اردگرد بکھری کہانیاں۔
آپ جیل گئےتھے۔۔۔؟ مگر کیوں۔۔۔؟
جی بیٹا! دو چار مہینے پہلے ہی زندگی کے تین برس سلاخوں کے پیچھےجیل کی کھال کھوٹیوں میں بیتا کر آٰیاہوں۔۔۔ بابامی تجسس بھری نگاہیں دیکھ کر بولتے چلے گئے۔۔۔۔ ہوا یوں کہ تین سال پہلے ایک پہچان والی افغان عورت اور اسکی بیٹی نے شکایت کی کہ ایک شخص انہیں تنگ کرتا ہے۔ میں اس بارے میں ااس شخص سے بات کرنے گیا تو انہوں نے گالم گلوچ سے استقبال کیا تو بات ہاتھا پائی تک پہنچی ایک غیرت مند پختون کا گالی برداشت کرنا ناممکن تھا۔ چنانچہ گھر گیا پسٹل لی اور جناب کو زندگی کے قید سے آزادی کا پروانہ تھما دیا۔ اور خود چکھی پیسنے جیل جا پہنچا۔ اپنے جرم اور گناہ کی سزا پا کر اب نئے سرے سے زندگی شروع کرناچاہی مگر اس عمر میں اب یہ میرے بس سے باہر ہے۔ کہ کبھی غربت کے کانٹے دامن سے الجھتیں ہیں تو کبھی تلوؤں میں چھبتیں ہیں۔۔۔
بابا پہلے آپ کا کیا مشغلہ تھا۔؟
بیٹا میری اپنی مسافر کوچ تھی۔ لیکن حوادث زمانہ نے سب کچھ چھین لیا اور اب گھر کے بھاری بھرکم بوج کےسوا کچھ بھی نہیں۔
یہ پچھلےدنوں کے بات ہے۔ جب غروب آفتاب کے بعد یونیورسٹی میں کلاس اختتام کو پہنچی اور باہر نکلے تو ڈپارٹمنٹ کے باہر تاریکی ہوری طرح سے چھا گئی تھی۔ شہریار کو ساتھ لیکر موٹر سائیکل پر ابوالحسن اصفہانی روڈ تک سڑک روندتے ہوئے آلآصف پہنچے۔ فرائز کھانے کی نیت سے ایک چپس والے کیبن کے قریب رکے، ایک پلیٹ چپس لی اور قریب چائے ہوٹل کے باہر رکھی پلاسٹک کی زرد کرسیوں پر جا بیٹھے۔
چپس کھاتے کھاتے پانی کی طلب ہوئی تو قریب رکھا جگ اٹھایا مگرجلد احساس ہوا کہ ساتھ میں گلاس ندارد۔ چنانچہ جگ واپس اپنے مقام پر رکھ کر کھانے میں مصروف ہوگئے۔
اتنے میں ہمارے مخالف سمت بیٹھا سفید لباس میں ملبوس باریش بوڑھا اپنی جگہ سے اٹھا اور قریب والےمیز سے گلاس لاکر ہمارے سامنے رکھدیا۔
اس لمحے دل چاہا کہ زمین پھٹ جاتی اور ہم شرم کے مارے اس میں دھنس جاتے۔
ارے بابا یہ گستاخی کیوں۔۔۔؟ ہم خود لے آتے۔۔۔۔۔ نہیں بیٹا پانی پلانےسے ثواب ملتا ہے۔۔۔ اچھا بابا تھوڑے سے چپس کھالے۔۔۔۔ نہیں بیٹا آپ لوگ کھائیں۔۔۔ اچھا بابا یہاں کسی کا انتظار کر رہے ہیں۔۔۔۔ ؟ باباآپ کیا کرتے ہیں ۔۔۔؟ بابا نے ایک آہ بھری مگر لبوں سے کچھ نہ بولے۔ جھریوں سے بھرپور چہرے سے بالکل عیاں تھا کہ بابا حوادث زمانہ کے مارے ہوئے ہیں۔ شکستہ دلی واضح نظر آرہی تھی۔ مگر شاید وہ اپنا دکھڑا کسی کو سنانا نہیں چاہ رہے تھے۔ پر باربار اصرار کرنے پر بابا گویا ہوئے اور پھر وہ دکھ بھری کہانی سنائی جس سے ہر آنکھ نم ہوجائے اور ہردل مغموم۔
چپس کی پلیٹ ختم ہوئی تو شہریار نے بابا کی تسلی کیلئے بطور تعاون کے کچھ رقم دی جسے پہلے تو بابا نے لینے سے انکار کردیا مگر پھر اصرار پررکھ لی۔
بابا سے رخصت ہوکر گھر کی راہ لی۔ پر ذہن سوچوں کی ایک نئی وادیوں میں کھو گیا۔ کہ یہ تو ایک بابا کی کہانی تھی نہ جانے ہمارے اردگرد کتنی ایسی کہانیاں بکھری پڑی ہونگی جو کسی سامعی اور معاون کی منتظر ہوں۔۔۔
(تحریر:شاکراحمد)
Comments
Post a Comment