پھلتی پھولتی ریاستیں تباہی کی دھانے پر:


یہ عالمی طاقتوں کا وطیرہ رہا ہے۔ کہ وہ ہر اس ریاست کو تباہی کے دہانے پر پہنچاتی ہے جو انکی ہاں میں ہاں نہ ملائی یا پھر انکی ترقی ان طاقتوں کی مرہون منت نہ ہو۔
اس تباہی کی ابتداء ہمیشہ اس ملک وریاست میں سیاسی افراءتفری،سیاسی انتشار اور حکومت کی کمزوری سے ہوتی ہے۔
عالمی طاقتیں کبھی یہ کام خود براہ راست کرتی ہے۔ یا پھر اقتدار کے خواہاں اور اپوزیشن پارٹیوں پر کروڑوں روپے لگواکر کرتی ہے۔ یہ پیسہ عوام میں ان پارٹیوں کی اہمیت بڑھانے اورانکا مورال بلند کرنے کیلئے الیکٹرونک اور سوشل میڈیا سمیت تمام ذرائع ابلاغ پر خرچ کیا جاتا ہے۔
حکومت وقت کے خلاف برسرپیکار جماعتیں سمجھتی ہے کہ یہ طاقتیں انکی معاون اور خواہاں ہے۔ لیکن بلی تھیلے سے تب باہر آتی ہے۔ جب میدان لگ چکا ہوتا ہے،سیاسی انتشار اور افراءتفری پوری عروج پر ہوتی ہے۔ اور ملک میں کاروبار سمیت تمام شعبہ ہائے زندگی ڈس آرگنائز کا شکارہوجاتی ہے۔ تو یہ طاقتیں پیچھے ہٹ جاتی ہے۔ اور پھر خانہ جنگی اس ملک کا مقدر بن جاتی ہے۔ یہ طاقتیں بعض دفعہ مذہب کو استعمال کرتی ہے اور بعض دفعہ بائیں بازو کی جماعتوں کے ذریعے ترقی کا سرسبز خواب دکھاتی ہے۔ جو بعد میں خانہ جنگی،غربت،جہالت اور ناکام معاشروں کے کی صورت میں نظر آتی ہے۔
اسکی سب سے بڑی مثال لیبیا،عراق اور شام میں بلکل واضح نظر آرہی ہے ۔کہ کس طرح ہنستے بستے معاشرے اور خوشگوار ماحول کو بارود،غربت اور خانہ جنگی کے دلدل میں دھنسا دیاگیا۔
ترکی جیسے ترقی یافتہ اور جدید ریاست  بھی کئ بار اس انتشار کا شکار ہوتےہوتے بچا ہے۔
اب ذرا پاکستان کا جائزہ لیں تو یہاں بھی صورتحال ذیادہ الگ دکھائ نہیں دیتی۔ جب سے سی پیک کی کہانی چلی ہے۔ان طاقتوں کے پیٹ میں مسلسل مروڑرہی ہے۔ اور انہیں یہ کسی بھی طرح ہضم نہیں ہورہا کہ ہماری شراکت یا نگرانی کے بغیر گوادر سامان تجارت کی آمدورفت کا مرکز بنے۔

آج جب ملک کی سب سے بڑی سیاسی جماعت اور حکومت وقت سے کہاجاتا ہے کہ امپائر کی انگلی اٹھنے والی ہے تو نہ جانے کیوں بطور امپائر وہی طاقتیں کھڑی نظرآرہی ہوتی ہے جو لیبیا،عراق،افغانستان، اور شام میں خون کی ہولی کھیلتے نہیں تھکتی۔

Comments

Popular posts from this blog

الوداع کلاس میٹرک

مدراس کیفے

کوئٹہ کا سفر