علم تاریخ
علم تاریخ کی مؤرخین بہت سی تعریفات کی ہے ان
میں سے ایک یہ بھی ہےکہ علم تاریخ وہ علم ہے جس کے ذریعہ نبیوں،بادشاہوں،فاتحین
اور مشہور شخصیتوں کے حالات اور گزرے ہوئے مختلف زمانوں کے عظیم الشان واقعات و
مراسم وغیرہ معلوم ہو سکے۔
تاریخ ہمیں
بزرگوں کے احوال سے واقف کرکے دل ودماغ ایک بابرکت جوش پیداء کردیتی ہےتاریخ ہمیں
قوموں کے حالات و واقعات اور ملکوں ملکوں سفر کراتی ہے تاریخ کا مطالعہ حوصلہ کو
بلند کرتا ہے ہمت کوبڑھاتاہے ،تاریخ کے مطالعہ سے دانائی اور بصیرت ترقی کرتی ہے
اور قوت فیصلہ بڑھ جاتی ہے۔ تاریخ کا مطالعہ انسان کو بادشاہوں،فاتحوں اور باکمال
لوگوں کی حالات زندگی سے باخبر رکھتی ہے۔
قوموں کو منازل
طےکرانےاور قوموں کو ذلت و پستی سے بچانے کیلئے تاریخ ایک زبردست مؤثر اور نہایت
قیمتی ذریعہ ہے قومیں جب کبھی ذلت کی پستی سے بام ترقی کی طرف متحرک ہوئی ہیں
انھوں نے تاریخ کو سب سے بڑا محرک پایاہے۔ قرآن کریم نےبھی ہمیں یہ بتایاہے کہ
سعادت مندی اور دین و دنیا کی کامرانی حاصل کرنے کیلئے تاریخ کا مطالعہ نہایت
ضروری ہے چنانچہ اللہ رب العزت نے لوگوں کو نصیحت حاصل کرنےکیلئے کلام پاک میں
جابجا امم سابقہ کے حالات یاد دلائے ہیں کہ فلاں قوم نے اپنی بداعمالیوں کےکیسے
برے نتائج دیکھے اور فلاں قوم اپنے اعمال حسنہ کی بدولت کیسی کامیاب ہوئی۔ حضرت
آدم،حضرت نوح،حضرت ابراھیم،حضرت موسیٰ و عیسیٰ کے واقعات اور فرعون، نمرود و
عاداور ثمرود وغیرہ کے حالات قرآن میں اس لئے ذکر نہیں کئے کہ لوگ انھیں سن کر لطف
اندوز ہوں بلکہ یہ عبرت اور نصیحت کے طور پر بیان کئےگئےہیں۔
انبیاء علیہ
السلام جونوع انسان کے سب سے بڑے محسن اور سب سے زیادہ خیرخواہ تھے انھوں نےجب
کبھی کسی قوم کو ہلاکت سے بچانے اور عزت و سعادت سے ہمکنار کرنے کی کوشش فرمائی ہے
تو اس قوم کو عہد ماضی کی تاریخ یاد دلائی ہے۔
آج جب کہ قوموں
کی تاریخ کے اثر و نتائج سے لوگ واقف ہوچکے ہیں اور یہ حقیقت دنیا پر کھل گئی ہےکہ
کسی قوم کو زندہ کرنے اور زندہ رکھنےکے سامانوں میں اس قوم کی گذشتہ تاریخ سب
سےزیادہ ضروری ہےتو وہ قومیں جواپنی کوئی باعظمت اور شاندار تاریخ نہیں رکھتے وہ
فرضی افسانوں اور من گھڑت قصوں کو تصنیف کرتےہیں تاکہ فرضی قصوں کو تاریخ کا جامہ
پہناکر اپنی نئی نسل کو مسابقت اقوام کے میدان میں تیزگام بنائے اور جھوٹی تاریخ
پر اپنی قوم کی حوصلہ افزائی کرے۔
یہی وجہ ہےکہ ہر
وہ قوم جو دوسری قوم سے عداوت رکھتی ہے اسکی تار یخ کو مسخ کرنے اور اسکےافراد
کواپنی تاریخ سے ٖغافل اور نواقف رکھنے کی کوششوں میں مصروف نظر آتی ہے۔
اقوام عالم میں
مسلمان ہی صرف وہ قوم ہے جو سب سے زیادہ شاندار تاریخ رکھتی ہے اور سب سے بڑھ کر
اپنے بزرگوں کے کارناموں کا ایسا یقینی علم کرسکتی ہے جو ہر قسم کے شک و شبہات سے
پاک ہو۔ مگر افسوس اور حیرت کا مقام ہے کہ آج جبکہ اقوام کا ایک دوسرے پر سبقت کا
ہنگامہ تمام دنیا میں برپا ہے مسلمان جو سب سے زیادہ شاندار تاریخ رکھتے ہیں وہی
سب سے زیادہ اپنی تاریخ سے بے پروا اور غافل نطر آتے ہیں مسلمانوں کے جس طبقے کو
کسی قدر بیدار اور ہوشیار کہا جاسکتا ہے اسکی بھی یہ حالت ہے کہ اپنے لیکچروں
تقریروں مضمونوں رسالوں اخباروں اور کتابوں میں جہاں کہیں اخلاق فاضلہ کے متعلق
کسی مثال کی ضرورت محسوس ہوتی ہے۔
تو وہاں اہل یورپ
اور عیسائیوں میں سے کسی مشہور شخصیت کا نام فورا زبان اور نوک قلم پر جاری ہوجاتا
ہے اور اس سے زیادہ مستحق سینکڑوں ہزاروں مسلمانوں میں سے کسی ایک شخص کانام بھی
لینا گوارہ نہیں کرتے۔کیا وجہ ہےکہ تعلیم یافتہ طبقہ اور جدید علوم سے سرشار
مسلمانوں کی تقریروں اور تحریروں میں خالد بن ولید،صلاح الدین ایوبی حسان بن
ثابت،فردوسی،طوسی،ابن رشد ،شیخ سعدی اور ابو علی سینا وغیرہ کے ناموں کے بجائے اہل
یورپ کے تذکرے ملتے ہیں ۔ جی ہاں اسکی سب سے بڑی وجہ کہ مسلمان اپنی تاریخ سے
ناواقف اور غافل ہے اس ناواقف اور غفلت کی اہم وجہ مسلمانوں کا علم کے اس سلسلے کو
چھوڑدینا ہے جو مسلمان فلاسفہ ریاضت دانوں اور علماء نے شروع کیا تھا اور علم کا
مسکن کہلوانے والے بغدادکی یونیورسٹیاں کھنڈرات کے بغیر کچھ بھی نہ رہی۔۔۔
حالانکہ تاریخ
نویسی کی طرف سب سےپہلے متوجہ ہونےوالی قوم ہی مسلمان تھی انھوں نے اپنے بزرگوں کی
صحیح تاریخ مرتب کی۔ مسلمانوں نے احادیث نبویہ کی حفاظت وروایت میں جس احتیاط سے کام لیااور جو عزم و
ہمت بروئے کار لائے ہیں اس کی مثال دنیا مین بسنے والی انسانی نسل ہر گز پیش نہیں
کرسکتی اصول حدیث اور اسمائ الرجال وغیرہ
مستقل علوم محض حدیث نبوی کی خدمت و حفاظت کیلئے مسلمانوں نے ایجاد کئے اور اسی
طرح روایت کی چھان بین اور تحقیق و تدقیق کیلئے جو محکم اصول مسلمانوں نے ایجاد
کئے اس کی نظیر عالم انسانیت کیلئے ممکن نہیں۔
مسلمانوں کا وہ
پہلا کرنامہ جو فن تاریخ سے تعلق رکھتا ہے وہ علم حدیث کی ترتیتب و تدوین اور پھر
اسی طرح اپنے خلفاء ،امراء،علماء اور حکماء کے حالات قلم بند کرنا ہے جسے بعد میں
اسلامی تاریخ کا نام دیا گیا۔
آج یورپی مؤرخین
کی فن تاریخ کو دیکھتے ہوئے مسلمان داد دئے بنا نہیں رہے سکتے اور تعریف کرنے میں
پورے خلوص سے کام لیتے ہیں لیکن شمالی افریقہ کے رہنے والے ایک اندلسی عرب خاندان
کے مسلمان مؤرخ ابن خلدون جس سے اہل یورپ نے تاریخ لکھنی سیکھی بلکل بھی نہیں
جانتے یا جانتے ہوئے بھی نظر انداز کردیتے ہیں۔۔۔۔
جب ہم اپنی تاریخ
سے لا علم ہوگئے تو مغرب کی تقلید شروع کردی حالانکہ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ ہم
تاریخ کا بغور مطالعہ کریں اور مسلمانوں کے اس سنہرے باب کو سامنے رکھتے
ہوئےایک
بار پھر اپنی علم اور فن سے دنیا کو یہ باور کراتے کہ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔
ہم خود تراشتے
ہیں منازل کے سنگ میل
ہم وہ نہیں جسے
زمانہ بنا گیا۔
تحریر:شاکر احمد خان
Comments
Post a Comment